محبتِ رسول ﷺ — ایمان کی روح اور بندگی کی معراج | غلام مزمل عطا اشرفی

محبتِ رسول ﷺ — ایمان کی روح | غلام مزمل عطا اشرفی

🌿 محبتِ رسول ﷺ — ایمان کی روح

ایک علمی و روحانی مکالمہ
✍️ تخلیق و تحریر: غلام مزمل عطا اشرفی

منظر: جامعہ کے پرنور صحن میں شام اتر رہی ہے۔ وضو خانہ سے پانی کے چھینٹے، اذان کی آوازیں، اور کتابوں کی خوشبو فضا میں گھل رہی ہے۔ استادِ محترم تخت پر جلوہ افروز ہیں اور طلبہ مؤدبانہ انداز میں حلقہ بنا کر بیٹھے ہیں۔

ایک طالبِ علم آگے بڑھ کر مؤدب انداز میں سلام کرتا ہے۔

طالبِ علم: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، حضورِ والا! امید ہے آپ بخیر ہوں گے۔

استاد: و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ، بیٹے! اللہ کا فضل ہے، بخیر ہوں۔ تم کیسے ہو؟

طالبِ علم: الحمدللہ حضور، آپ کی دعاؤں سے۔ آج کے درس میں آپ نے فرمایا کہ "محبتِ رسول ﷺ ایمان کی روح ہے"۔ یہ جملہ دل میں اتر گیا، اگر اجازت ہو تو اسی پر چند سوالات پیش کروں؟

استاد: ضرور بیٹے، محبتِ رسول ﷺ ایسا بحرِ بیکراں ہے جس کی ہر موج ایمان کی خوشبو سے مہک رہی ہے۔ پوچھو، کیا سمجھنا چاہتے ہو؟


طالبِ علم: استادِ محترم! آج آپ نے درس میں فرمایا کہ "محبتِ رسول ﷺ ایمان کی روح ہے"۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس حقیقت کو تفصیل سے سمجھائیں — ایمان تو یقین و اقرار کا نام ہے، پھر محبت کو روحِ ایمان کیوں کہا گیا؟ استاد: بیٹے! ایمان اگر جسم ہے تو محبتِ رسول ﷺ اس کی روح ہے۔ جسم روح کے بغیر بے جان ہوتا ہے، ویسے ہی ایمان محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے بغیر بے اثر رہتا ہے۔ قرآن مجید نے ایمان کی بنیاد اسی محبت پر رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ (الأحزاب: 6) "نبی ﷺ مومنوں کے لیے ان کی جانوں سے بھی زیادہ قریب اور زیادہ حق دار ہیں۔" یعنی ایمان کی معراج یہ ہے کہ بندہ اپنی ذات سے بڑھ کر نبی ﷺ سے تعلق رکھے — یہ تعلق محبت کا ہے، ادب کا ہے، اطاعت کا ہے۔ طالبِ علم: کیا یہی وہ محبت ہے جسے ایمان کی علامت کہا گیا؟ استاد: ہاں بیٹے، یہی محبت۔ دیکھو، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين." (بخاری و مسلم) "تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔" یعنی محبتِ رسول ﷺ ایمان کا زیور نہیں، ایمان کا شرطِ لازم ہے۔ اگر یہ محبت نہ ہو، تو زبان سے اقرار، دل سے یقین اور عمل سے اطاعت — سب بے جان ہیں۔ طالبِ علم: استادِ محترم! محبت کے درجے کیا ہیں؟ کیا صرف جذباتی لگاؤ کافی ہے؟ استاد: نہیں بیٹے! محبت کی کئی منازل ہیں۔ محبتِ رسول ﷺ کا پہلا درجہ ہے تعظیم، دوسرا اتباع، تیسرا ایثار، اور چوتھا فنا فی الرسول۔ 1️⃣ تعظیم: دل میں حضور ﷺ کے لیے بے پایاں احترام۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ (الفتح: 9) "تاکہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، ان کی مدد کرو اور ان کی تعظیم کرو۔" یہی ایمان کی پہچان ہے۔ 2️⃣ اتباع: محبت اگر حقیقی ہو تو اطاعت کی صورت اختیار کرتی ہے۔ قرآن فرماتا ہے: قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّـهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّـهُ (آل عمران: 31) "اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔" 3️⃣ ایثار: یعنی اپنی خواہشات قربان کر دینا۔ صحابہ کرامؓ کی زندگی اسی محبت کے جلوے سے روشن تھی۔ حضرت صہیبؓ نے فرمایا: "اگر تیرے دین میں میری جان جا بھی جائے، تو یہ سودا نفع کا ہے۔" 4️⃣ فنا فی الرسول: یعنی اپنی ذات کو حضور ﷺ کی محبت میں بھلا دینا۔ یہ مقام حضرت بلالؓ، حضرت اویس قرنیؓ، اور عاشقانِ مدینہ کا تھا، جو پتھروں کے نیچے بھی "أحد، أحد" کی صدا بلند کرتے رہے۔ طالبِ علم: استادِ محترم! محبتِ رسول ﷺ کی علامات کیا ہیں؟ ہم کیسے جانیں کہ یہ جذبہ ہمارے دل میں موجود ہے؟ استاد: محبتِ رسول ﷺ کی نشانیاں قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہیں۔ میں تمہیں تین بڑی علامتیں بتاتا ہوں: 🌹 پہلی علامت: نامِ مصطفیٰ ﷺ پر دل کی نرمی اور آنکھوں کی تری۔ رسولِ اکرم ﷺ کا ذکر سن کر دل جھوم جائے، تو یہ محبت کا پہلا اثر ہے۔ 🌹 دوسری علامت: سنت کی پیروی میں لذت محسوس ہونا۔ جو شخص حضور ﷺ کے طریقے پر عمل کر کے راحت محسوس کرے، وہ سچا عاشق ہے۔ 🌹 تیسری علامت: دینِ مصطفیٰ ﷺ کے لیے غیرت و جذبہ۔ حضور ﷺ کی حرمت پر کوئی بات ہو تو دل تڑپ اٹھے، یہ ایمان کی زندگی کی علامت ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "من أحب سنتي فقد أحبني ومن أحبني كان معي في الجنة." (ترمذی) "جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔" طالبِ علم: استادِ محترم! بعض لوگ کہتے ہیں کہ محبت صرف دل کا معاملہ ہے، عمل کی ضرورت نہیں۔ کیا یہ درست ہے؟ استاد: بیٹے! یہ شیطان کا فریب ہے۔ اگر محبت عمل سے خالی ہو تو وہ صرف دعویٰ رہ جاتی ہے۔ سچی محبت وہ ہے جو کردار میں ظاہر ہو۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں: "ما كان أحد أحب إليهم من رسول الله ﷺ، وكانوا إذا رأوه لم يقوموا له لما يعلمون من كراهيته لذلك." (ترمذی) "صحابہ کے نزدیک کوئی حضور ﷺ سے زیادہ محبوب نہ تھا، مگر وہ آپ کے احترام میں کھڑے بھی نہ ہوتے کیونکہ جانتے تھے کہ آپ کو یہ پسند نہیں۔" دیکھا؟ ان کی محبت میں ادب بھی تھا، عمل بھی، اور اطاعت بھی۔ طالبِ علم: استادِ محترم! کیا محبتِ رسول ﷺ سے دنیاوی برکتیں بھی حاصل ہوتی ہیں؟ استاد: یقیناً! محبتِ رسول ﷺ نہ صرف ایمان کی روح ہے بلکہ زندگی کی برکت بھی ہے۔ قرآن نے فرمایا: وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاؤُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساء: 64) "اگر وہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر تیرے پاس آ جاتے اور تو ان کے لیے استغفار کرتا، تو وہ اللہ کو بخشنے والا، مہربان پاتے۔" یہ آیت بتاتی ہے کہ قربِ رسول ﷺ باعثِ مغفرت ہے۔ محبتِ رسول ﷺ برکت، مغفرت، اور قربِ الٰہی کا دروازہ ہے۔ طالبِ علم (آبدیدہ ہوکر): استادِ محترم! اب سمجھ آیا کہ محبتِ رسول ﷺ ایمان کا زیور نہیں بلکہ اس کا نور ہے۔ یہ وہ نور ہے جو دل کو زندہ رکھتا ہے، عمل کو حسین بناتا ہے، اور انسان کو رب سے ملا دیتا ہے۔ استاد (مسکراتے ہوئے): شاباش بیٹے! یاد رکھو — محبتِ رسول ﷺ وہ نکتہ ہے جہاں سے بندگی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جو دل محبتِ مصطفیٰ ﷺ سے خالی ہو، وہ قبر ہے؛ اور جو دل محبتِ رسول ﷺ سے لبریز ہو، وہ عرش کا عکس ہے۔ اسی لیے امام مالکؒ فرماتے تھے: "جب مدینہ میں داخل ہو تو دیکھو تمہارا دل بدل گیا یا نہیں۔ اگر بدل گیا تو سمجھ لو مصطفیٰ ﷺ کے عشق نے چھو لیا۔" طالبِ علم: استادِ محترم! اس محبت کو بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ استاد: اس کے تین طریقے ہیں بیٹے: 1️⃣ کثرتِ درود: درود شریف محبت کا ایندھن ہے۔ رسولِ اکرم ﷺ نے فرمایا: "أقربكم مني مجلسًا يوم القيامة أكثرُكم عليّ صلاةً." (ترمذی) "قیامت کے دن میرے قریب وہ ہوگا جس نے مجھ پر سب سے زیادہ درود بھیجا۔" 2️⃣ مطالعۂ سیرت: جب بندہ حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کو پڑھتا ہے تو دل میں محبت کی لہریں اٹھتی ہیں۔ سیرت مصطفیٰ ﷺ دلوں کی زنگ آلودگی کا تریاق ہے۔ 3️⃣ خدمتِ دین: جو دینِ محمد ﷺ کی خدمت کرتا ہے، وہ محبوبِ محمد ﷺ بن جاتا ہے۔ محبت صرف الفاظ نہیں — خدمت اور قربانی کا نام ہے۔ اختتام: مغرب کی اذان ختم ہو چکی ہے۔ استاد اور شاگرد خاموشی سے مسجد کی سمت بڑھ جاتے ہیں۔ ان کے لبوں پر درود کی صدائیں ہیں، دلوں میں عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی تپش، اور فضا میں ایمان کی خوشبو۔ 🌸 خلاصۂ کلام: محبتِ رسول ﷺ وہ چراغ ہے جو ایمان کو روشن کرتا ہے، وہ روح ہے جو اعمال میں جان ڈالتی ہے، اور وہ راز ہے جو بندے کو رب تک پہنچا دیتا ہے۔ "جو نبی ﷺ کا نہیں، وہ کسی کا نہیں۔" "محبتِ مصطفیٰ ﷺ — ایمان کی روح ہے، ایمان کا جوہر ہے، اور بندگی کی معراج ہے۔"

طالبِ علم: السلام علیکم و رحمۃ اللہ، حضور! دعا فرما دیں۔

استاد: وعلیکم السلام، بیٹے! اللہ تمہیں علمِ نافع، عشقِ مصطفیٰ ﷺ، اور ایمان کی حلاوت عطا فرمائے۔ اللہ تمہیں دین و دنیا میں کامیاب کرے۔

✍️ تحریر و تخلیق: غلام مزمل عطا اشرفی

0 Comments

Post a Comment

Post a Comment (0)

Previous Post Next Post